ہم کو تو انتظار سحر بھی قبول ہے
لیکن شب فراق ترا کیا اصول ہے
اے ماہ نیم شب تری رفتار کے نثار
یہ چاندنی نہیں ترے قدموں کی دھول ہے
کانٹا ہے وہ کہ جس نے چمن کو لہو دیا
خون بہار جس نے پیا ہے وہ پھول ہے
دیکھا تھا اہل دل نے کوئی سرو نو بہار
دامن الجھ گیا تو پکارے ببول ہے
باقی ہے پو پھٹے بھی ستاروں کی روشنی
شاید مریض شب کی طبیعت ملول ہے
جب معتبر نہیں تھا مرا عشق بدگماں
اب حسن خود فروش کا رونا فضول ہے
لٹ کر سمجھ رہے ہیں کہ نادم ہے راہزن
کتنی حسین اہل مروت کی بھول ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں