نهی تھا اپنا مزاج ایسا، کہ ظرف کهو کر انآ بچاتے،
وگرنہ ایسے جواب دیتے، کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ہماری فطرت کو جانتا ہے، تبھی تو دشمن یہ کہہ رہا ہے،
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا، جو دوست ہوتے کمال ہوتے
اسے مبارک مقام اونچا، سہی حقیقت ہمیں پتہ ہے،
بناتے رشتوں کی ہم بهی سیڑھی، تو آسماں کی مثال ہوتے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں